Meal Seç / Sure Seç

الْأَعْرَاف Suresi

(URDU) QURAN


7 - الْأَعْرَاف
        
1. الف، لام، میم، صاد (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)
2. (اے حبیبِ مکرّم!) یہ کتاب ہے (جو) آپ کی طرف اتاری گئی ہے سو آپ کے سینۂ (انور) میں اس (کی تبلیغ پر کفار کے انکار و تکذیب کے خیال) سے کوئی تنگی نہ ہو (یہ تو اتاری ہی اس لئے گئی ہے) کہ آپ اس کے ذریعے (منکرین کو) ڈر سنا سکیں اور یہ مومنین کے لئے نصیحت (ہے
3. (اے لوگو!) تم اس (قرآن) کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف اتارا گیا ہے اور اس کے غیروں میں سے (باطل حاکموں اور) دوستوں کے پیچھے مت چلو، تم بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو
4. اور کتنی ہی بستیاں (ایسی) ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کر ڈالا سو ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آیا یا (جبکہ) وہ دوپہر کو سو رہے تھے
5. پھر جب ان پر ہمارا عذاب آگیا تو ان کی پکار سوائے اس کے (کچھ) نہ تھی کہ وہ کہنے لگے کہ بیشک ہم ظالم تھے
6. پھر ہم ان لوگوں سے ضرور پرسش کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور ہم یقیناً رسولوں سے بھی (ان کی دعوت و تبلیغ کے ردِّ عمل کی نسبت) دریافت کریں گے
7. پھر ہم ان پر (اپنے) علم سے (ان کے سب) حالات بیان کریں گے اور ہم (کہیں) غائب نہ تھے (کہ انہیں دیکھتے نہ ہوں)
8. اور اس دن (اعمال کا) تولا جانا حق ہے، سو جن کے (نیکیوں کے) پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ کامیاب ہوں گے
9. اور جن کے (نیکیوں کے) پلڑے ہلکے ہوں گے تو یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو نقصان پہنچایا، اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے
10. اور بیشک ہم نے تم کو زمین میں تمکّن و تصرّف عطا کیا اور ہم نے اس میں تمہارے لئے اسبابِ معیشت پیدا کئے، تم بہت ہی کم شکر بجا لاتے ہو
11. اور بیشک ہم نے تمہیں (یعنی تمہاری اصل کو) پیدا کیا پھر تمہاری صورت گری کی (یعنی تمہاری زندگی کی کیمیائی اور حیاتیاتی ابتداء و ارتقاء کے مراحل کو آدم (علیہ السلام) کے وجود کی تشکیل تک مکمل کیا)، پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا
13. ارشاد ہوا: پس تو یہاں سے اتر جا تجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تو یہاں تکّبر کرے پس (میری بارگاہ سے) نکل جا بیشک تو ذلیل و خوار لوگوں میں سے ہے
14. اس نے کہا: مجھے اس دن تک (زندگی کی) مہلت دے جس دن لوگ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے
15. ارشاد ہوا: بیشک تو مہلت دیئے جانے والوں میں سے ہے
16. اس (ابلیس) نے کہا: پس اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے (مجھے قَسم ہے کہ) میں (بھی) ان (افرادِ بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لئے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا (تآنکہ انہیں راہِ حق سے ہٹا دوں)
17. پھر میں یقیناً ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان کے پاس آؤں گا، اور (نتیجتاً) تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزار نہ پائے گ
18. ارشاد باری ہوا: (اے ابلیس!) تو یہاں سے ذلیل و مردود ہو کر نکل جا، ان میں سے جو کوئی تیری پیروی کرے گا تو میں ضرور تم سب سے دوزخ بھر دوں گا
19. اور اے آدم! تم اور تمہاری زوجہ (دونوں) جنت میں سکونت اختیار کرو سو جہاں سے تم دونوں چاہو کھایا کرو اور (بس) اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ تم دونوں حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے
20. پھر شیطان نے دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ان (کی نظروں) سے پوشیدہ تھیں ان پر ظاہر کر دے اور کہنے لگا: (اے آدم و حوا!) تمہارے رب نے تمہیں اس درخت (کا پھل کھانے) سے نہیں روکا مگر (صرف اس لئے کہ اسے کھانے سے) تم دونوں فرشتے بن جاؤ گے (یعنی علائقِ بشری سے پاک ہو جاؤ گے) یا تم دونوں (اس میں) ہمیشہ رہنے والے بن جاؤ گے (یعنی اس مقامِ قرب سے کبھی محروم نہیں کئے جاؤ گے)
21. اور ان دونوں سے قَسم کھا کر کہا کہ بیشک میں تمہارے خیرخواہوں میں سے ہوں
22. پس وہ فریب کے ذریعے دونوں کو (درخت کا پھل کھانے تک) اتار لایا، سو جب دونوں نے درخت (کے پھل) کو چکھ لیا تو دونوں کی شرم گاہیں ان کے لئے ظاہر ہوگئیں اور دونوں اپنے (بدن کے) اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے، تو ان کے رب نے انہیں ندا فرمائی کہ کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت (کے قریب جانے) سے روکا نہ تھا اور تم سے یہ (نہ) فرمایا تھا کہ بیشک شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے
23. دونوں نے عرض کیا: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی؛ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے
24. ارشادِ باری ہوا: تم (سب) نیچے اتر جاؤ تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہیں، اور تمہارے لئے زمین میں معیّن مدت تک جائے سکونت اور متاعِ حیات (مقرر کر دیئے گئے ہیں گویا تمہیں زمین میں قیام و معاش کے دو بنیادی حق دے کر اتارا جا رہا ہے، اس پر اپنا نظامِ زندگی استوار کرنا)
25. ارشاد فرمایا: تم اسی (زمین) میں زندگی گزارو گے اور اسی میں مَرو گے اور (قیامت کے روز) اسی میں سے نکالے جاؤ گے
26. اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے تمہارے لئے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور (اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا ہے اور وہی) تقوٰی کا لباس ہی بہتر ہے۔ یہ (ظاہر و باطن کے لباس سب) اﷲ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں
27. اے اولادِ آدم! (کہیں) تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈال دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا، ان سے ان کا لباس اتروا دیا تاکہ انہیں ان کی شرم گاہیں دکھا دے۔ بیشک وہ (خود) اور اس کا قبیلہ تمہیں (ایسی ایسی جگہوں سے) دیکھتا (رہتا) ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ بیشک ہم نے شیطانوں کو ایسے لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں رکھتے
28. اور جب وہ کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں (تو) کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی (طریقہ) پر پایا اور اﷲ نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے۔ فرما دیجئے کہ اﷲ بے حیائی کے کاموں کا حکم نہیں دیتا۔ کیا تم اﷲ (کی ذات) پر ایسی باتیں کرتے ہو جو تم خود (بھی) نہیں جانتے
29. فرما دیجئے: میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے، اور تم ہر سجدہ کے وقت و مقام پر اپنے رُخ (کعبہ کی طرف) سیدھے کر لیا کرو اور تمام تر فرمانبرداری اس کے لئے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کیا کرو۔ جس طرح اس نے تمہاری (خلق و حیات کی) ابتداء کی تم اسی طرح (اس کی طرف) پلٹو گے
30. ایک گروہ کو اس نے ہدایت فرمائی اور ایک گروہ پر (اس کے اپنے کسب و عمل کے نتیجے میں) گمراہی ثابت ہو گئی۔ بیشک انہوں نے اﷲ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنا لیا تھا اور وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں
31. اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
32. فرما دیجئے: اﷲ کی اس زینت (و آرائش) کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمائی ہے اور کھانے کی پاک ستھری چیزوں کو (بھی کس نے حرام کیا ہے)؟ فرما دیجئے: یہ (سب نعمتیں جو) اہلِ ایمان کی دنیا کی زندگی میں (بالعموم روا) ہیں قیامت کے دن بالخصوص (انہی کے لئے) ہوں گی۔ اس طرح ہم جاننے والوں کے لئے آیتیں تفصیل سے بیان کرتے ہیں
33. فرما دیجئے کہ میرے ربّ نے (تو) صرف بے حیائی کی باتوں کو حرام کیا ہے جو ان میں سے ظاہر ہوں اور جو پوشیدہ ہوں (سب کو) اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کو اور اس بات کو کہ تم اﷲ کا شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری اور (مزید) یہ کہ تم اﷲ (کی ذات) پر ایسی باتیں کہو جو تم خود بھی نہیں جانتے
34. اور ہر گروہ کے لئے ایک میعاد (مقرر) ہے پھر جب ان کا (مقررہ) وقت آجاتا ہے تو وہ ایک گھڑی (بھی) پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں
35. اے اولادِ آدم! اگر تمہارے پاس تم میں سے رسول آئیں جو تم پر میری آیتیں بیان کریں پس جو پرہیزگار بن گیا اور اس نے (اپنی) اصلاح کر لی تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ (ہی) وہ رنجیدہ ہوں گے
36. اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان (پر ایمان لانے) سے سرکشی کی، وہی اہلِ جہنم ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں
37. پھر اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اﷲ پر جھوٹا بہتان باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے؟ ان لوگوں کو ان کا (وہ) حصہ پہنچ جائے گا (جو) نوشۃٔ کتاب ہے، یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) آئیں گے کہ ان کی روحیں قبض کر لیں (تو ان سے) کہیں گے: اب وہ (جھوٹے معبود) کہاں ہیں جن کی تم اﷲ کے سوا عبادت کرتے تھے؟ وہ (جواباً) کہیں گے کہ وہ ہم سے گم ہوگئے (یعنی اب کہاں نظر آتے ہیں) اور وہ اپنی جانوں کے خلاف (خود یہ) گواہی دیں گے کہ بیشک وہ کافر تھے
38. اﷲ فرمائے گا: تم جنوں اور انسانوں کی ان (جہنّمی) جماعتوں میں شامل ہو کر جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں دوزخ میں داخل ہو جاؤ۔ جب بھی کوئی جماعت (دوزخ میں) داخل ہوگی وہ اپنے جیسی دوسری جماعت پر لعنت بھیجے گی، یہاں تک کہ جب اس میں سارے (گروہ) جمع ہو جائیں گے تو ان کے پچھلے اپنے اگلوں کے حق میں کہیں گے کہ اے ہمارے ربّ! انہی لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا سو ان کو دوزخ کا دوگنا عذاب دے۔ ارشاد ہوگا: ہر ایک کے لئے دوگنا ہے مگر تم جانتے نہیں ہو
39. اور ان کے اگلے اپنے پچھلوں سے کہیں گے: سو تمہیں ہم پر کچھ فضیلت نہ ہوئی پس (اب) تم (بھی) عذاب (کا مزہ) چکھو اس کے سبب جو کچھ تم کماتے تھے
40. بیشک جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے سرکشی کی ان کے لئے آسمانِ (رحمت و قبولیت) کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہو سکیں گے یہاں تک کہ سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل ہو جائے (یعنی جیسے یہ ناممکن ہے اسی طرح ان کا جنت میں داخل ہونا بھی ناممکن ہے)، اور ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیںo
41. اور ان کے لئے (آتشِ) دوزخ کا بچھونا اور ان کے اوپر (اسی کا) اوڑھنا ہوگا، اور ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں
42. اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلّف نہیں کرتے، یہی لوگ اہلِ جنت ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
43. اور ہم وہ (رنجش و) کینہ جو ان کے سینوں میں (دنیا کے اندر ایک دوسرے کے لئے) تھا نکال (کے دور کر) دیں گے ان کے (محلوں کے) نیچے نہریں جاری ہوں گی، اور وہ کہیں گے: سب تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جس نے ہمیں یہاں تک پہنچا دیا، اور ہم (اس مقام تک کبھی) راہ نہ پا سکتے تھے اگر اﷲ ہمیں ہدایت نہ فرماتا، بیشک ہمارے رب کے رسول حق (کا پیغام) لائے تھے، اور (اس دن) ندا دی جائے گی کہ تم لوگ اس جنت کے وارث بنا دیئے گئے ہو ان (نیک) اعمال کے باعث جو تم انجام دیتے تھے
44. اور اہلِ جنت دوزخ والوں کو پکار کر کہیں گے: ہم نے تو واقعتاً اسے سچّا پالیا جو وعدہ ہمارے رب نے ہم سے فرمایا تھا، سو کیا تم نے (بھی) اسے سچّا پایا جو وعدہ تمہارے ربّ نے (تم سے) کیا تھا؟ وہ کہیں گے: ہاں۔ پھر ان کے درمیان ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ ظالموں پر اﷲ کی لعنت ہے
45. (یہ وہی ہیں) جو (لوگوں کو) اﷲ کی راہ سے روکتے تھے اور اس میں کجی تلاش کرتے تھے اور وہ آخرت کا انکار کرنے والے تھے
46. اور (ان) دونوں (یعنی جنتیوں اور دوزخیوں) کے درمیان ایک حجاب (یعنی فصیل) ہے، اور اَعراف (یعنی اسی فصیل) پر کچھ مرد ہوں گے جو سب کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے۔ اور وہ اہلِ جنت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ وہ (اہلِ اَعراف خود ابھی) جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے حالانکہ وہ (اس کے) امیدوار ہوں گے
47. اور جب ان کی نگاہیں دوزخ والوں کی طرف پھیری جائیں گی تو وہ کہیں گے: اے ہمارے ربّ! ہمیں ظالم گروہ کے ساتھ (جمع) نہ کر
48. اور اہلِ اعراف (ان دوزخی) مردوں کو پکاریں گے جنہیں وہ ان کی نشانیوں سے پہچان رہے ہوں گے (ان سے) کہیں گے: تمہاری جماعتیں تمہارے کام نہ آسکیں اور نہ (وہ) تکبّر (تمہیں بچا سکا) جو تم کیا کرتے تھے
49. کیا یہی وہ لوگ ہیں (جن کی خستہ حالت دیکھ کر) تم قَسمیں کھایا کرتے تھے کہ اﷲ انہیں اپنی رحمت سے (کبھی) نہیں نوازے گا؟ (سن لو! اب انہی کو کہا جا رہا ہے:) تم جنت میں داخل ہو جاؤ نہ تم پر کوئی خوف ہوگا اور نہ تم غمگین ہوگے
50. اور دوزخ والے اہلِ جنت کو پکار کر کہیں گے کہ ہمیں (جنّتی) پانی سے کچھ فیض یاب کر دو یا اس (رزق) میں سے جو اﷲ نے تمہیں بخشا ہے۔ وہ کہیں گے: بیشک اﷲ نے یہ دونوں (نعمتیں) کافروں پر حرام کر دی ہیں
51. جنہوں نے اپنے دین کو تماشا اور کھیل بنا لیا اور جنہیں دنیوی زندگی نے فریب دے رکھا تھا، آج ہم انہیں اسی طرح بھلا دیں گے جیسے وہ (ہم سے) اپنے اس دن کی ملاقات کو بھولے ہوئے تھے اور جیسے وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے
52. اور بیشک ہم ان کے پاس ایسی کتاب (قرآن) لائے جسے ہم نے (اپنے) علم (کی بنا) پر مفصّل (یعنی واضح) کیا، وہ ایمان والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے
53. وہ صرف اس (کہی ہوئی بات) کے انجام کے منتظر ہیں، جس دن اس (بات) کا انجام سامنے آجائے گا وہ لوگ جو اس سے قبل اسے بھلا چکے تھے کہیں گے: بیشک ہمارے رب کے رسول حق (بات) لے کر آئے تھے، سو کیا (آج) ہمارے کوئی سفارشی ہیں جو ہمارے لئے سفارش کر دیں یا ہم (پھر دنیا میں) لوٹا دیئے جائیں تاکہ ہم (اس مرتبہ) ان (اعمال) سے مختلف عمل کریں جو (پہلے) کرتے رہے تھے۔ بیشک انہوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا اور وہ (بہتان و افتراء) ان سے جاتا رہا جو وہ گھڑا کرتے تھے
54. بیشک تمہارا رب اﷲ ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی کائنات) کو چھ مدتوں (یعنی چھ اَدوار) میں پیدا فرمایا پھر (اپنی شان کے مطابق) عرش پر استواء (یعنی اس کائنات میں اپنے حکم و اقتدار کے نظام کا اجراء) فرمایا۔ وہی رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے (درآنحالیکہ دن رات میں سے) ہر ایک دوسرے کے تعاقب میں تیزی سے لگا رہتا ہے اور سورج اور چاند اور ستارے (سب) اسی کے حکم (سے ایک نظام) کے پابند بنا دیئے گئے ہیں۔ خبردار! (ہر چیز کی) تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے۔ اﷲ بڑی برکت والا ہے جو تمام جہانوں کی (تدریجاً) پرورش فرمانے والا ہےo
55. تم اپنے رب سے گڑگڑا کر اور آہستہ (دونوں طریقوں سے) دعا کیا کرو، بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا
56. اور زمین میں اس کے سنور جانے (یعنی ملک کا ماحولِ حیات درست ہو جانے) کے بعد فساد انگیزی نہ کرو اور (اس کے عذاب سے) ڈرتے ہوئے اور (اس کی رحمت کی) امید رکھتے ہوئے اس سے دعا کرتے رہا کرو، بیشک اﷲ کی رحمت احسان شعار لوگوں (یعنی نیکوکاروں) کے قریب ہوتی ہے
57. اور وہی ہے جو اپنی رحمت (یعنی بارش) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ (ہوائیں) بھاری بھاری بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں تو ہم ان (بادلوں) کو کسی مردہ (یعنی بے آب و گیاہ) شہر کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر ہم اس (بادل) سے پانی برساتے ہیں پھر ہم اس (پانی) کے ذریعے (زمین سے) ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں۔ اسی طرح ہم (روزِ قیامت) مُردوں کو (قبروں سے) نکالیں گے تاکہ تم نصیحت قبول کروo
58. اور جو اچھی (یعنی زرخیز) زمین ہے اس کا سبزہ اﷲ کے حکم سے (خوب) نکلتا ہے اور جو (زمین) خراب ہے (اس سے) تھوڑی سی بے فائدہ چیز کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ اسی طرح ہم (اپنی) آیتیں (یعنی دلائل اور نشانیاں) ان لوگوں کے لئے بار بار بیان کرتے ہیں جو شکرگزار ہیں
59. بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا سو انہوں نے کہا: اے میری قوم (کے لوگو!) تم اﷲ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، یقیناً مجھے تمہارے اوپر ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف آتا ہےo
60. ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے کہا: (اے نوح!) بیشک ہم تمہیں کھلی گمراہی میں (مبتلا) دیکھتے ہیں
61. انہوں نے کہا: اے میری قوم! مجھ میں کوئی گمراہی نہیں لیکن (یہ حقیقت ہے کہ) میں تمام جہانوں کے رب کی طرف سے رسول (مبعوث ہوا) ہوں
62. میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا رہا ہوں اور تمہیں نصیحت کر رہا ہوں اور اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
63. کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تم ہی میں سے ایک مرد (کی زبان) پر نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں (عذابِ الٰہی سے) ڈرائے اور تم پرہیزگار بن جاؤ اور یہ اس لئے ہے کہ تم پر رحم کیا جائے
64. پھر ان لوگوں نے انہیں جھٹلایا سو ہم نے انہیں اور ان لوگوں کو جو کَشتی میں ان کی معیّت میں تھے نجات دی اور ہم نے ان لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا، بیشک وہ اندھے (یعنی بے بصیرت) لوگ تھے
65. اور ہم نے (قومِ) عاد کی طرف ان کے (قومی) بھائی ہُود (علیہ السلام) کو (بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! تم اﷲ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں، کیا تم پرہیزگار نہیں بنتے
66. ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے جو کفر (یعنی دعوتِ حق کی مخالفت و مزاحمت) کر رہے تھے کہا: (اے ہود!) بیشک ہم تمہیں حماقت (میں مبتلا) دیکھتے ہیں اور بیشک ہم تمہیں جھوٹے لوگوں میں گمان کرتے ہیں
67. انہوں نے کہا: اے میری قوم! مجھ میں کوئی حماقت نہیں لیکن (یہ حقیقت ہے کہ) میں تمام جہانوں کے رب کی طرف سے رسول (مبعوث ہوا) ہوں
68. میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا رہا ہوں اور میں تمہارا امانت دار خیرخواہ ہوں
69. کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تم ہی میں سے ایک مرد (کی زبان) پر نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں (عذابِ الٰہی سے) ڈرائے، اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد (زمین پر) جانشین بنایا اور تمہاری خلقت میں (قد و قامت اور) قوت کو مزید بڑھا دے، سو تم اﷲ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ
70. وہ کہنے لگے: کیا تم ہمارے پاس (اس لئے) آئے ہو کہ ہم صرف ایک اﷲ کی عبادت کریں اور ان (سب خداؤں) کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے؟ سو تم ہمارے پاس وہ (عذاب) لے آؤ جس کی تم ہمیں وعید سناتے ہو اگر تم سچے لوگوں میں سے ہو
71. انہوں نے کہا: یقیناً تم پر تمہارے رب کی طرف سے عذاب اور غضب واجب ہو گیا۔ کیا تم مجھ سے ان (بتوں کے) ناموں کے بارے میں جھگڑ رہے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے (خود ہی فرضی طور پر) رکھ لئے ہیں جن کی اﷲ نے کوئی سند نہیں اتاری؟ سو تم (عذاب کا) انتظار کرو میں (بھی) تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوںo
72. پھر ہم نے ان کو اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے اپنی رحمت کے باعث نجات بخشی اور ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور وہ ایمان لانے والے نہ تھے
73. اور (قومِ) ثمود کی طرف ان کے (قومی) بھائی صالح (علیہ السلام) کو (بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کیا کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل آگئی ہے۔ یہ اﷲ کی اونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے، سو تم اسے (آزاد) چھوڑے رکھنا کہ اﷲ کی زمین میں چَرتی رہے اور اسے برائی (کے ارادے) سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں دردناک عذاب آپکڑے گا
74. اور یاد کرو جب اس نے تمہیں (قومِ) عاد کے بعد (زمین میں) جانشین بنایا اور تمہیں زمین میں سکونت بخشی کہ تم اس کے نرم (میدانی) علاقوں میں محلات بناتے ہو اور پہاڑوں کو تراش کر (ان میں) گھر بناتے ہو، سو تم اﷲ کی (ان) نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد انگیزی نہ کرتے پھرو
75. ان کی قوم کے ان سرداروں اور رئیسوں نے جو متکّبر و سرکش تھے ان غریب پسے ہوئے لوگوں سے کہا جو ان میں سے ایمان لے آئے تھے: کیا تمہیں یقین ہے کہ واقعی صالح (علیہ السلام) اپنے ربّ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا: جو کچھ انہیں دے کر بھیجا گیا ہے بیشک ہم اس پر ایمان رکھنے والے ہیں
76. متکبّر لوگ کہنے لگے: بیشک جس (چیز) پر تم ایمان لائے ہو ہم اس کے سخت منکر ہیں
77. پس انہوں نے اونٹنی کو (کاٹ کر) مار ڈالا اور اپنے ربّ کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے: اے صالح! تم وہ (عذاب) ہمارے پاس لے آؤ جس کی تم ہمیں وعید سناتے تھے اگر تم (واقعی) رسولوں میں سے ہو
78. سو انہیں سخت زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا پس وہ (ہلاک ہو کر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئےo
79. پھر (صالح علیہ السلام نے) ان سے منہ پھیر لیا اور کہا: اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا اور نصیحت (بھی) کر دی تھی لیکن تم نصیحت کرنے والوں کو پسند (ہی) نہیں کرتے
80. اور لوط(علیہ السلام) کو (بھی ہم نے اسی طرح بھیجا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم (ایسی) بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جسے تم سے پہلے اہلِ جہاں میں سے کسی نے نہیں کیا تھاo
81. بیشک تم نفسانی خواہش کے لئے عورتوں کو چھوڑ کر مَردوں کے پاس آتے ہو بلکہ تم حد سے گزر جانے والے ہو
82. اور ان کی قوم کا سوائے اس کے کوئی جواب نہ تھا کہ وہ کہنے لگے: ان کو بستی سے نکال دو بیشک یہ لوگ بڑے پاکیزگی کے طلب گار ہیں
83. پس ہم نے ان کو (یعنی لوط علیہ السلام کو) اور ان کے اہلِ خانہ کو نجات دے دی سوائے ان کی بیوی کے، وہ عذاب میں پڑے رہنے والوں میں سے تھی
84. اور ہم نے ان پر (پتھروں کی) بارش کر دی سو آپ دیکھئے کہ مجرموں کا انجام کیسا ہواo
85. اور مدین کی طرف (ہم نے) ان کے (قومی) بھائی شعیب (علیہ السلام) کو (بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! تم اﷲ کی عبادت کیا کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آچکی ہے سو تم ماپ اور تول پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور زمین میں اس (کے ماحولِ حیات) کی اصلاح کے بعد فساد بپا نہ کیا کرو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم (اس الُوہی پیغام کو) ماننے والے ہو
86. اور تم ہر راستہ پر اس لئے نہ بیٹھا کرو کہ تم ہر اس شخص کو جو اس (دعوت) پر ایمان لے آیا ہے خوفزدہ کرو اور (اسے) اﷲ کی راہ سے روکو اور اس (دعوت) میں کجی تلاش کرو (تاکہ اسے دینِ حق سے برگشتہ اور متنفر کر سکو) اور (اﷲ کا احسان) یاد کرو جب تم تھوڑے تھے تو اس نے تمہیں کثرت بخشی، اور دیکھو فساد پھیلانے والوں کا انجام کیسا ہوا
87. اور اگر تم میں سے کوئی ایک گروہ اس (دین) پر جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں ایمان لے آیا ہے اور دوسرا گروہ ایمان نہیں لایا تو (اے ایمان والو!) صبر کرو یہاں تک کہ اﷲ ہمارے درمیان فیصلہ فرما دے، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے
88. ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے جو سرکش و متکبر تھے کہا: اے شعیب! ہم تمہیں اور ان لوگوں کو جو تمہاری معیت میں ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے بہر صورت نکال دیں گے یا تمہیں ضرور ہمارے مذہب میں پلٹ آنا ہوگا۔ شعیب (علیہ السلام) نے کہا: اگرچہ ہم (تمہارے مذہب میں پلٹنے سے) بے زار ہی ہوں
89. بیشک ہم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھیں گے اگر ہم تمہارے مذہب میں اس امر کے بعد پلٹ جائیں کہ اللہ نے ہمیں اس سے بچا لیا ہے، اور ہمارے لئے ہرگز (مناسب) نہیں کہ ہم اس (مذہب) میں پلٹ جائیں مگر یہ کہ اللہ چاہے جو ہمارا رب ہے۔ ہمارا رب اَز روئے علم ہر چیز پر محیط ہے۔ ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کرلیا ہے، اے ہمارے رب! ہمارے اور ہماری (مخالف) قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے اور تو سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے
90. اور ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے جو کفر (و انکار) کے مرتکب ہو رہے تھے کہا: (اے لوگو!) اگر تم نے شعیب (علیہ السلام) کی پیروی کی تو اس وقت تم یقیناً نقصان اٹھانے والے ہوجاؤ گے
91. پس انہیں شدید زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا، سو وہ (ہلاک ہوکر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے
92. جن لوگوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا (وہ ایسے نیست و نابود ہوئے) گویا وہ اس (بستی) میں (کبھی) بسے ہی نہ تھے۔ جن لوگوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا (حقیقت میں) وہی نقصان اٹھانے والے ہوگئے
93. تب (شعیب علیہ السلام) ان سے کنارہ کش ہوگئے اور کہنے لگے: اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے تھے اور میں نے تمہیں نصیحت (بھی) کردی تھی پھر میں کافر قوم (کے تباہ ہونے) پر افسوس کیونکر کروںo
94. اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر ہم نے اس کے باشندوں کو (نبی کی تکذیب و مزاحمت کے باعث) سختی و تنگی اور تکلیف و مصیبت میں گرفتار کرلیا تاکہ وہ آہ و زاری کریںo
95. پھر ہم نے (ان کی) بدحالی کی جگہ خوش حالی بدل دی، یہاں تک کہ وہ (ہر لحاظ سے) بہت بڑھ گئے۔ اور (نا شکری سے) کہنے لگے کہ ہمارے باپ دادا کو بھی (اسی طرح) رنج اور راحت پہنچتی رہی ہے سو ہم نے انہیں اس کفرانِ نعمت پر اچانک پکڑ لیا اور انہیں (اس کی) خبر بھی نہ تھی
96. اور اگر (ان) بستیوں کے باشندے ایمان لے آتے اور تقوٰی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے (حق کو) جھٹلایا، سو ہم نے انہیں ان اَعمالِ (بد) کے باعث جو وہ انجام دیتے تھے (عذاب کی) گرفت میں لے لیا
97. کیا اب بستیوں کے باشندے اس بات سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب (پھر) رات کو آپہنچے اس حال میں کہ وہ (غفلت کی نیند) سوئے ہوئے ہیںo
98. یا بستیوں کے باشندے ا س بات سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب (پھر) دن چڑھے آجائے اس حال میں کہ (وہ دنیا میں مدہوش ہوکر) کھیل رہے ہوں؟
99. کیا وہ لو گ اللہ کی مخفی تدبیر سے بے خوف ہیں؟ پس اللہ کی مخفی تدبیر سے کوئی بے خوف نہیں ہوا کرتا سوائے نقصان اٹھانے والی قوم کے
100. کیا (یہ بات بھی) ان لوگوں کو (شعور و) ہدایت نہیں دیتی جو (ایک زمانے میں) زمین پر رہنے والوں (کی ہلاکت) کے بعد (خود) زمین کے وارث بن رہے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے باعث انہیں (بھی) سزا دیں، اور ہم ان کے دلوں پر (ان کی بداَعمالیوں کی وجہ سے) مُہر لگا دیں گے سو وہ (حق کو) سن (سمجھ) بھی نہیں سکیں گے
101. یہ وہ بستیاں ہیں جن کی خبریں ہم آپ کو سنا رہے ہیں، اور بیشک ان کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر آئے تو وہ (پھر بھی) اس قابل نہ ہوئے کہ اس پر ایمان لے آتے جسے وہ پہلے جھٹلا چکے تھے، اس طرح اللہ کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے
102. اور ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں میں عہد (کا نباہ) نہ پایا اور ان میں سے اکثر لوگوں کو ہم نے نافرمان ہی پایا
103. پھر ہم نے ان کے بعد موسٰی (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے (درباری) سرداروں کے پاس بھیجا تو انہوں نے ان (دلائل اور معجزات) کے ساتھ ظلم کیا، پھر آپ دیکھئے کہ فساد پھیلانے والوں کا انجام کیسا ہوا؟o
104. اور موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: اے فرعون! بیشک میں تمام جہانوں کے رب کی طرف سے رسول (آیا) ہوں
105. مجھے یہی زیب دیتا ہے کہ اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا (کچھ) نہ کہوں۔ بیشک میں تمہارے رب (کی جانب) سے تمہارے پاس واضح نشانی لایا ہوں، سو تُو بنی اسرائیل کو (اپنی غلامی سے آزاد کر کے) میرے ساتھ بھیج دے
106. اس (فرعون) نے کہا: اگر تم کوئی نشانی لائے ہو تو اسے (سامنے) لاؤ اگر تم سچے ہو
107. پس موسٰی (علیہ السلام) نے اپنا عصا (نیچے) ڈال دیا تو اسی وقت صریحاً اژدہا بن گ
108. اور اپنا ہاتھ (گریبان میں ڈال کر) نکالا تو وہ (بھی) اسی وقت دیکھنے والوں کے لئے (چمک دار) سفید ہوگیا
109. قومِ فرعون کے سردار بولے: بیشک یہ (تو کوئی) بڑا ماہر جادوگر ہے
110. (لوگو!) یہ تمہیں تمہارے ملک سے نکالنا چاہتا ہے، سو تم کیا مشورہ دیتے ہو
111. انہوں نے کہا: (ابھی) اس کے اور اس کے بھائی (کے معاملہ) کو مؤخر کر دو اور (مختلف) شہروں میں (جادوگروں کو) جمع کرنے والے افراد بھیج دو
112. وہ تمہارے پاس ہر ماہر جادوگر کو لے آئیںo
113. اور جادوگر فرعون کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: یقیناً ہمارے لئے کچھ اُجرت ہونی چاہیے بشرطیکہ ہم غالب آجائیں
114. فرعون نے کہا: ہاں! اور بیشک (عام اُجرت تو کیا اس صورت میں) تم (میرے دربار کی) قربت والوں میں سے ہو جاؤ گے
115. ان جادوگروں نے کہا: اے موسٰی! یا تو (اپنی چیز) آپ ڈال دیں یا ہم ہی (پہلے) ڈالنے والے ہوجائیں
116. موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: تم ہی (پہلے) ڈال دو پھر جب انہوں نے (اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کو زمین پر) ڈالا (تو انہوں نے) لوگوں کی آنکھوں پرجادو کردیا اور انہیں ڈرا دیا اور وہ زبردست جادو (سامنے) لے آئے
117. . اور ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی کہ (اب) آپ اپنا عصا (زمین پر) ڈال دیں تو وہ فوراً ان چیزوں کو نگلنے لگا جو انہوں نے فریب کاری سے وضع کر رکھی تھیںo
118. پس حق ثابت ہوگیا اور جو کچھ وہ کر رہے تھے (سب) باطل ہوگیا
119. سو وہ (فرعونی نمائندے) اس جگہ مغلوب ہوگئے اور ذلیل ہوکر پلٹ گئے
120. اور (تمام) جادوگر سجدہ میں گر پڑے
121. وہ بول اٹھے: ہم سارے جہانوں کے (حقیقی) رب پر ایمان لے آئے
122. (جو) موسٰی اور ہارون (علیہما السلام) کا رب ہے
123. . فرعون کہنے لگا: (کیا) تم اس پر ایمان لے آئے ہو قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا؟ بیشک یہ ایک فریب ہے جو تم (سب) نے مل کر (مجھ سے) اس شہر میں کیا ہے تاکہ تم اس (ملک) سے اس کے (قبطی) باشندوں کو نکال کر لے جاؤ، سو تم عنقریب (اس کا انجام) جان لو گے
124. میں یقیناً تمہارے ہاتھوں کو اور تمہارے پاؤں کو ایک دوسرے کی الٹی سمت سے کاٹ ڈالوں گا پھر ضرور بالضرور تم سب کو پھانسی دے دوں گا
125. انہوں نے کہا: بیشک ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں
126. اور تمہیں ہمارا کون سا عمل برا لگا ہے؟ صرف یہی کہ ہم اپنے رب کی (سچی) نشانیوں پر ایمان لے آئے ہیں جب وہ ہمارے پاس پہنچ گئیں۔ اے ہمارے رب! تو ہم پر صبر کے سرچشمے کھول دے اور ہم کو (ثابت قدمی سے) مسلمان رہتے ہوئے (دنیا سے) اٹھالے
127. اور قومِ فرعون کے سرداروں نے (فرعون سے) کہا: کیا تو موسٰی اور اس کی (اِنقلاب پسند) قوم کو چھوڑ دے گا کہ وہ ملک میں فساد پھیلائیں اور (پھر کیا) وہ تجھ کو اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں گے؟ اس نے کہا: (نہیں) اب ہم ان کے لڑکوں کو قتل کردیں گے (تاکہ ان کی مردانہ افرادی قوت ختم ہوجائے) اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے (تاکہ ان سے زیادتی کی جاسکے)، اور بیشک ہم ان پر غالب ہیں
128. موسٰی (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا: تم اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، بیشک زمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور انجامِ خیر پرہیزگاروں کے لئے ہی ہے
129. لوگ کہنے لگے: (اے موسٰی!) ہمیں تو آپ کے ہمارے پاس آنے سے پہلے بھی اذیتیں پہنچائی گئیں اور آپ کے ہمارے پاس آنے کے بعد بھی (گویا ہم دونوں طرح مارے گئے، ہماری مصیبت کب دور ہو گی؟) موسٰی (علیہ السلام) نے (اپنی قوم کو تسلی دیتے ہوئے) فرمایا: قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور (اس کے بعد) زمین (کی سلطنت) میں تمہیں جانشین بنا دے پھر وہ دیکھے کہ تم (اقتدار میں آکر) کیسے عمل کرتے ہو
130. پھر ہم نے اہلِ فرعون کو (قحط کے) چند سالوں اور میووں کے نقصان سے (عذاب کی) گرفت میں لے لیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں
131. پھر جب انہیں آسائش پہنچتی تو کہتے: یہ ہماری اپنی وجہ سے ہے۔ اور اگر انہیں سختی پہنچتی، وہ موسٰی (علیہ السلام) اور ان کے (ایمان والے) ساتھیوں کی نسبت بدشگونی کرتے، خبردار! ان کا شگون (یعنی شامتِ اَعمال) تو اللہ ہی کے پاس ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ علم نہیں رکھتے
132. اور وہ (اہلِ فرعون متکبرانہ طور پر) کہنے لگے: (اے موسٰی!) تم ہمارے پاس جو بھی نشانی لاؤ کہ تم اس کے ذریعے ہم پر جادو کر سکو، تب بھی ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں
133. پھر ہم نے ان پر طوفان، ٹڈیاں،گھن، مینڈک اور خون (کتنی ہی) جداگانہ نشانیاں (بطورِ عذاب) بھیجیں، پھر (بھی) انہوں نے تکبر و سرکشی اختیار کئے رکھی اور وہ (نہایت) مجرم قوم تھے
134. اور جب ان پر (کوئی) عذاب واقع ہوتا تو کہتے: اے موسٰی! آپ ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کریں اس عہد کے وسیلہ سے جو (اس کا) آپ کے پاس ہے، اگر آپ ہم سے اس عذاب کو ٹال دیں تو ہم ضرور آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو (بھی آزاد کر کے) آپ کے ساتھ بھیج دیں گے
135. پھر جب ہم ان سے اس مدت تک کے لئے جس کو وہ پہنچنے والے ہوتے وہ عذاب ٹال دیتے تو وہ فوراً ہی عہد توڑ دیتے
136. پھر ہم نے ان سے (بالآخر تمام نافرمانیوں اور بدعہدیوں کا) بدلہ لے لیا اور ہم نے انہیں دریا میں غرق کردیا، اس لئے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کی (پے در پے) تکذیب کی تھی اور وہ ان سے (بالکل) غافل تھے
137. اور ہم نے اس قوم (بنی اسرائیل) کو جو کمزور اور استحصال زدہ تھی اس سرزمین کے مشرق و مغرب (مصر اور شام) کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی تھی، اور (یوں) بنی اسرائیل کے حق میں آپ کے رب کا نیک وعدہ پورا ہوگیا اس وجہ سے کہ انہوں نے (فرعونی مظالم پر) صبر کیا تھا، اور ہم نے ان (عالیشان محلات) کو تباہ و برباد کردیا جو فرعون اور اس کی قوم نے بنا رکھے تھے اور ان چنائیوں (اور باغات) کو بھی جنہیں وہ بلندیوں پر چڑھاتے تھےo
138. اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر (یعنی بحرِ قلزم) کے پار اتارا تو وہ ایک ایسی قوم کے پاس جا پہنچے جو اپنے بتوں کے گرد (پرستش کے لئے) آسن مارے بیٹھے تھے، (بنی اسرائیل کے لوگ) کہنے لگے: اے موسٰی! ہمارے لئے بھی ایسا (ہی) معبود بنا دیں جیسے ان کے معبود ہیں، موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: تم یقیناً بڑے جاہل لوگ ہو
139. بلاشبہ یہ لوگ جس چیز (کی پوجا) میں (پھنسے ہوئے) ہیں وہ ہلاک ہوجانے والی ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ (بالکل) باطل ہے
140. (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: کیا میں تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی اور معبود تلاش کروں، حالانکہ اسی (اللہ) نے تمہیں سارے جہانوں پر فضیلت بخشی ہے
141. اور (وہ وقت) یاد کرو جب ہم نے تم کو اہلِ فرعون سے نجات بخشی جو تمہیں بہت ہی سخت عذاب دیتے تھے، وہ تمہارے لڑکوں کو قتل کردیتے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے، اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے زبردست آزمائش تھی
142. اور ہم نے موسٰی (علیہ السلام) سے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا اور ہم نے اسے (مزید) دس (راتیں) ملا کر پورا کیا، سو ان کے رب کی (مقرر کردہ) میعاد چالیس راتوں میں پوری ہوگئی۔ اور موسٰی (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) سے فرمایا: تم (اس دوران) میری قوم میں میرے جانشین رہنا اور (ان کی) اصلاح کرتے رہنا اور فساد کرنے والوں کی راہ پر نہ چلنا (یعنی انہیں اس راہ پر نہ چلنے دینا)
143. اور جب موسٰی (علیہ السلام) ہمارے (مقرر کردہ) وقت پر حاضر ہوا اور اس کے رب نے اس سے کلام فرمایا تو (کلامِ ربانی کی لذت پا کر دیدار کا آرزو مند ہوا اور) عرض کرنے لگا: اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کرلوں، ارشاد ہوا: تم مجھے (براہِ راست) ہرگز دیکھ نہ سکوگے مگر پہاڑ کی طرف نگاہ کرو پس اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو عنقریب تم میرا جلوہ کرلوگے۔ پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر (اپنے حسن کا) جلوہ فرمایا تو (شدّتِ اَنوار سے) اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسٰی (علیہ السلام) بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ پھر جب اسے افاقہ ہوا تو عرض کیا: تیری ذات پاک ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں
144. ارشاد ہوا: اے موسٰی! بیشک میں نے تمہیں لوگوں پر اپنے پیغامات اور اپنے کلام کے ذریعے برگزیدہ و منتخب فرما لیا۔ سو میں نے تمہیں جو کچھ عطا فرمایا ہے اسے تھام لو اور شکر گزاروں میں سے ہوجاؤ
145. اور ہم نے ان کے لئے (تورات کی) تختیوں میں ہر ایک چیز کی نصیحت اور ہر ایک چیز کی تفصیل لکھ دی (ہے)، تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو اور اپنی قوم کو (بھی) حکم دو کہ وہ اس کی بہترین باتوں کو اختیار کرلیں۔ میں عنقریب تمہیں نافرمانوں کا مقام دکھاؤں گا
146. میں اپنی آیتوں (کے سمجھنے اور قبول کرنے) سے ان لوگوں کو باز رکھوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں اور اگر وہ تمام نشانیاں دیکھ لیں (تب بھی) اس پر ایمان نہیں لائیں گے اور اگر وہ ہدایت کی راہ دیکھ لیں (پھر بھی) اسے (اپنا) راستہ نہیں بنائیں گے اور اگر وہ گمراہی کا راستہ دیکھ لیں (تو) اسے اپنی راہ کے طور پر اپنالیں گے، یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے غافل بنے رہے
147. اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ان کے اعمال برباد ہوگئے۔ انہیں کیا بدلہ ملے گا مگر وہی جوکچھ وہ کیا کرتے تھے
148. اور موسٰی (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے (کوہِ طور پر جانے کے) بعد اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا لیا (جو) ایک جسم تھا، اس کی آواز گائے کی تھی، کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ نہ ان سے بات کرسکتا ہے اور نہ ہی انہیں راستہ دکھا سکتا ہے۔ انہوں نے اسی کو (معبود) بنا لیا اور وہ ظالم تھے
149. اور جب وہ اپنے کئے پر شدید نادم ہوئے اور انہوں نے دیکھ لیا کہ وہ واقعی گمراہ ہوگئے ہیں (تو) کہنے لگے: اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہمیں نہ بخشا تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے
150. اور جب موسٰی (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف نہایت غم و غصہ سے بھرے ہوئے پلٹے تو کہنے لگے کہ تم نے میرے (جانے کے) بعد میرے پیچھے بہت ہی برا کام کیا ہے، کیا تم نے اپنے رب کے حکم پر جلد بازی کی؟ اور (موسٰی علیہ السلام نے تورات کی) تختیاں نیچے رکھ دیں اور اپنے بھائی کے سر کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا (تو) ہارون (علیہ السلام) نے کہا: اے میری ماں کے بیٹے! بیشک اس قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ (میرے منع کرنے پر) مجھے قتل کر ڈالیں، سو آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں اور مجھے ان ظالم لوگوں (کے زمرے) میں شامل نہ کریں
151. (موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما دے اور ہمیں اپنی رحمت (کے دامن) میں داخل فرما لے اور تو سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے
152. بیشک جن لوگوں نے بچھڑے کو (معبود) بنا لیا ہے انہیں ان کے رب کی طرف سے غضب بھی پہنچے گا اور دنیوی زندگی میں ذلت بھی، اور ہم اسی طرح افترا پردازوں کو سزا دیتے ہیں
153. اور جن لوگوں نے برے کام کئے پھر اس کے بعد توبہ کرلی اور ایمان لے آئے (تو) بیشک آپ کا رب اس کے بعد بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے
154. اور جب موسٰی (علیہ السلام) کا غصہ تھم گیا تو انہوں نے تختیاں اٹھالیں اور ان (تختیوں) کی تحریر میں ہدایت اور ایسے لوگوں کے لئے رحمت (مذکور) تھی جو اپنے رب سے بہت ڈرتے ہیں
155. اور موسٰی (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے ستر مَردوں کو ہمارے مقرر کردہ وقت (پر ہمارے حضور معذرت کی پیشی) کے لئے چن لیا، پھر جب انہیں (قوم کو برائی سے منع نہ کرنے پر تادیباً) شدید زلزلہ نے آپکڑا تو (موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے رب! اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی ان لوگوں کو اور مجھے ہلاک فرما دیتا، کیا تو ہمیں اس (خطا) کے سبب ہلاک فرمائے گا جو ہم میں سے بیوقوف لوگوں نے انجام دی ہے، یہ تو محض تیری آزمائش ہے، اس کے ذریعے تو جسے چاہتا ہے گمراہ فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت فرماتا ہے۔ تو ہی ہمارا کارساز ہے، سو ُتو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے
156. اور تو ہمارے لئے اس دنیا (کی زندگی) میں (بھی) بھلائی لکھ دے اور آخرت میں (بھی) بیشک ہم تیری طرف تائب و راغب ہوچکے، ارشاد ہوا: میں اپنا عذاب جسے چاہتا ہوں اسے پہنچاتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے، سو میں عنقریب اس (رحمت) کو ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے رہتے ہیں اور وہی لوگ ہی ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں
157. (یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو اُمّی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر مِن جانبِ اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نورِ (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں
158. آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں جس کے لئے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی جلاتا اور مارتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ جو (شانِ اُمیّت کا حامل) نبی ہے (یعنی اس نے اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہیں پڑھا مگر جمیع خلق سے زیادہ جانتا ہے اور کفر و شرک کے معاشرے میں جوان ہوا مگر بطنِ مادر سے نکلے ہوئے بچے کی طرح معصوم اور پاکیزہ ہے) جو اللہ پر اور اس کے (سارے نازل کردہ) کلاموں پر ایمان رکھتا ہے اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا سکو
159. اور موسٰی (علیہ السلام) کی قوم میں سے ایک جماعت (ایسے لوگوں کی بھی) ہے جو حق کی راہ بتاتے ہیں اور اسی کے مطابق عدل (پر مبنی فیصلے) کرتے ہیں
160. اور ہم نے انہیں گروہ در گروہ بارہ قبیلوں میں تقسیم کر دیا، اور ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کے پاس (یہ) وحی بھیجی جب اس سے اس کی قوم نے پانی مانگا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو، سو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، پس ہر قبیلہ نے اپنا گھاٹ معلوم کرلیا، اور ہم نے ان پر اَبر کا سائبان تان دیا، اور ہم نے ان پر منّ و سلوٰی اتارا، (اور ان سے فرمایا:) جن پاکیزہ چیزوں کا رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے کھاؤ، (مگر نافرمانی اور کفرانِ نعمت کر کے) انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کر رہے تھ
161. اور (یاد کرو) جب ان سے فرمایا گیا کہ تم اس شہر (بیت المقدس یا اریحا) میں سکونت اختیار کرو اور تم وہاں سے جس طرح چاہو کھانا اور (زبان سے) کہتے جانا کہ (ہمارے گناہ) بخش دے اور (شہر کے) دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا (تو) ہم تمہاری تمام خطائیں بخش دیں گے، عنقریب ہم نیکو کاروں کو اور زیادہ عطا فرمائیں گے
162. پھر ان میں سے ظالموں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی، دوسری بات سے بدل ڈالا، سو ہم نے ان پر آسمان سے عذاب بھیجا اس وجہ سے کہ وہ ظلم کرتے تھے
163. اور آپ ان سے اس بستی کا حال دریافت فرمائیں جو سمندر کے کنارے واقع تھی، جب وہ لوگ ہفتہ (کے دن کے احکام) میں حد سے تجاوز کرتے تھے (یہ اس وقت ہوا) جب (ان کے سامنے) ان کی مچھلیاں ان کے (تعظیم کردہ) ہفتہ کے دن کو پانی (کی سطح) پر ہر طرف سے خوب ظاہر ہونے لگیں اور (باقی) ہر دن جس کی وہ یومِ شنبہ کی طرح تعظیم نہیں کرتے تھے (مچھلیاں) ان کے پاس نہ آتیں، اس طرح ہم ان کی آزمائش کر رہے تھے بایں وجہ کہ وہ نافرمان تھے
164. اور جب ان میں سے ایک گروہ نے (فریضۂ دعوت انجام دینے والوں سے) کہا کہ تم ایسے لوگوں کو نصیحت کیوں کر رہے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا جنہیں نہایت سخت عذاب دینے والا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے حضور (اپنی) معذرت پیش کرنے کے لئے اور اس لئے (بھی) کہ شاید وہ پرہیزگار بن جائیں
165. پھر جب وہ ان (سب) باتوں کو فراموش کر بیٹھے جن کی انہیں نصیحت کی گئی تھی (تو) ہم نے ان لوگوں کو نجات دے دی جو برائی سے منع کرتے تھے (یعنی نہی عنِ المنکر کا فریضہ ادا کرتے تھے) اور ہم نے (بقیہ سب) لوگوں کو جو (عملاً یا سکوتاً) ظلم کرتے تھے نہایت برے عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کر رہے تھے
166. پھر جب انہوں نے اس چیز (کے ترک کرنے کے حکم) سے سرکشی کی جس سے وہ روکے گئے تھے (تو) ہم نے انہیں حکم دیا کہ تم ذلیل و خوار بندر ہوجاؤ
167. اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب آپ کے رب نے (یہود کو یہ) حکم سنایا کہ (اللہ) ان پر روزِ قیامت تک (کسی نہ کسی) ایسے شخص کو ضرور مسلّط کرتا رہے گا جو انہیں بری تکلیفیں پہنچاتا رہے۔ بیشک آپ کا رب جلد سزا دینے والا ہے، اور بیشک وہ بڑا بخشنے والا مہربان (بھی) ہے
168. اور ہم نے انہیں زمین میں گروہ در گروہ تقسیم (اور منتشر) کر دیا، ان میں سے بعض نیکوکار بھی ہیں اور ان (ہی) میں سے بعض اس کے سوا (بدکار) بھی اور ہم نے ان کی آزمائش انعامات اور مشکلات (دونوں طریقوں) سے کی تاکہ وہ (اللہ کی طرف) رجوع کریں
169. پھر ان کے بعد ناخلف (ان کے) جانشین بنے جو کتاب کے وارث ہوئے، یہ (جانشین) اس کم تر (دنیا) کا مال و دولت (رشوت کے طور پر) لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں: عنقریب ہمیں بخش دیا جائے گا، حالانکہ اسی طرح کا مال و متاع اور بھی ان کے پاس آجائے (تو) اسے بھی لے لیں، کیا ان سے کتابِ (الٰہی) کا یہ عہد نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں حق (بات) کے سوا کچھ اور نہ کہیں گے؟ اور وہ (سب کچھ) پڑھ چکے تھے جو اس میں (لکھا) تھا؟ اور آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں، کیا تم سمجھتے نہیں ہو
170. اور جو لوگ کتابِ (الٰہی) کو مضبوط پکڑے رہتے ہیں او ر نماز (پابندی سے) قائم رکھتے ہیں (تو) بیشک ہم اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے
171. اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب ہم نے ان کے اوپر پہاڑ کو (یوں) بلند کر دیا جیسا کہ وہ (ایک) سائبان ہو اور وہ (یہ) گمان کرنے لگے کہ ان پر گرنے والا ہے۔ (سو ہم نے ان سے فرمایا: ڈرو نہیں بلکہ) تم وہ (کتاب) مضبوطی سے (عملاً) تھامے رکھو جو ہم نے تمہیں عطا کی ہے اور ان (احکام) کو (خوب) یاد رکھو جو اس میں (مذکور) ہیں تاکہ تم (عذاب سے) بچ جاؤ
172. اور (یاد کیجئے!) جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور ان کو انہی کی جانوں پر گواہ بنایا (اور فرمایا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ (سب) بول اٹھے: کیوں نہیں! (تو ہی ہمارا رب ہے،) ہم گواہی دیتے ہیں تاکہ قیامت کے دن یہ (نہ) کہو کہ ہم اس عہد سے بے خبر تھے
173. یا (ایسا نہ ہو کہ) تم کہنے لگو کہ شرک تو محض ہمارے آباء و اجداد نے پہلے کیا تھا اور ہم تو ان کے بعد (ان کی) اولاد تھے (گویا ہم مجرم نہیں اصل مجرم وہ ہیں)، تو کیا تو ہمیں اس (گناہ) کی پاداش میں ہلاک فرمائے گا جو اہلِ باطل نے انجام دیا تھا
174. اور اسی طرح ہم آیتوں کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ (حق کی طرف) رجوع کریں
175. اور آپ انہیں اس شخص کا قصہ (بھی) سنا دیں جسے ہم نے اپنی نشانیاں دیں پھر وہ ان (کے علم و نصیحت) سے نکل گیا اور شیطان اس کے پیچھے لگ گیا تو وہ گمراہوں میں سے ہوگیا
176. اور اگر ہم چاہتے تو اسے ان (آیتوں کے علم و عمل) کے ذریعے بلند فرما دیتے لیکن وہ (خود) زمینی دنیا کی (پستی کی) طرف راغب ہوگیا اور اپنی خواہش کا پیرو بن گیا، تو (اب) اس کی مثال اس کتے کی مثال جیسی ہے کہ اگر تو اس پر سختی کرے تو وہ زبان نکال دے یا تو اسے چھوڑ دے (تب بھی) زبان نکالے رہے۔ یہ ایسے لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، سو آپ یہ واقعات (لوگوں سے) بیان کریں تاکہ وہ غور و فکر کریں
177. مثال کے لحاظ سے وہ قوم بہت ہی بری ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور (درحقیقت) وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے
178. جسے اللہ ہدایت فرماتا ہے پس وہی ہدایت پانے والا ہے، اور جسے وہ گمراہ ٹھہراتا ہے پس وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں
179. اور بیشک ہم نے جہنم کے لئے جِنّوں اور انسانوں میں سے بہت سے (افراد) کو پیدا فرمایا وہ دل (و دماغ) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سمجھ نہیں سکتے اور وہ آنکھیں رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) دیکھ نہیں سکتے اور وہ کان (بھی) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سن نہیں سکتے، وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ (ان سے بھی) زیادہ گمراہ، وہی لوگ ہی غافل ہیں
180. اور اللہ ہی کے لئے اچھے اچھے نام ہیں، سو اسے ان ناموں سے پکارا کرو اور ایسے لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے انحراف کرتے ہیں، عنقریب انہیں ان (اعمالِ بد) کی سزا دی جائے گی جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں
181. اور جنہیں ہم نے پیدا فرمایا ہے ان میں سے ایک جماعت (ایسے لوگوں کی بھی) ہے جو حق بات کی ہدایت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ عدل پر مبنی فیصلے کرتے ہیں
182. اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے ہم عنقریب انہیں آہستہ آہستہ ہلاکت کی طرف لے جائیں گے ایسے طریقے سے کہ انہیں خبر بھی نہیں ہوگی
183. اور میں انہیں مہلت دے رہا ہوں، بیشک میری گرفت بڑی مضبوط ہے
184. کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ انہیں (اپنی) صحبت کے شرف سے نوازنے والے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنون سے کوئی علاقہ نہیں، وہ تو (نافرمانوں کو) صرف واضح ڈر سنانے والے ہیں
185. کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت میں اور (علاوہ ان کے) جو کوئی چیز بھی اللہ نے پیدا فرمائی ہے (اس میں) نگاہ نہیں ڈالی؟ اور اس میں کہ کیا عجب ہے ان کی مدتِ (موت) قریب آچکی ہو، پھر اس کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے
186. جسے اللہ گمراہ ٹھہرا دے تو اس کے لئے (کوئی) راہ دکھانے والا نہیں، اور وہ انہیں ان کی سرکشی میں چھوڑے رکھتا ہے تاکہ (مزید) بھٹکتے رہیں
187. یہ (کفار) آپ سے قیامت کی نسبت دریافت کرتے ہیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت کب ہے؟ فرما دیں کہ اس کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہے، اسے اپنے (مقررہ) وقت پر اس (اللہ) کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین (کے رہنے والوں) پر (شدائد و مصائب کے خوف کے باعث) بوجھل (لگ رہی) ہے۔ وہ تم پر اچانک (حادثاتی طور پر) آجائے گی، یہ لوگ آپ سے (اس طرح) سوال کرتے ہیں گویا آپ اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں، فرما دیں کہ اس کا علم تو محض اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت کو) نہیں جانتے
188. آپ (ان سے یہ بھی) فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا خود مالک نہیں ہوں مگر (یہ کہ) جس قدر اللہ نے چاہا، اور (اسی طرح بغیر عطاءِ الٰہی کے) اگر میں خود غیب کا علم رکھتا تو میں اَز خود بہت سی بھلائی (اور فتوحات) حاصل کرلیتا اور مجھے (کسی موقع پر) کوئی سختی (اور تکلیف بھی) نہ پہنچتی، میں تو (اپنے منصبِ رسالت کے باعث) فقط ڈر سنانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں٭o ٭ڈر اور خوشی کی خبریں بھی اُمورِ غیب میں سے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مطلع فرماتا ہے کیونکہ مِن جانبِ اللہ ایسی اِطلاع علی الغیب کے بغیر نہ تو نبوت و رسالت متحقق ہوتی ہے اور نہ ہی یہ فریضہ ادا ہو سکتا ہے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں فرمایا گیا ہے: وَمَا ھُوَ عَلَی الغَیبِ بِضَنِین ٍ(التکویر، 81: 24) (اور یہ نیی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب بتانے میں ہر گز بخیل نہیں)۔ اس قرآنی ارشاد کے مطابق غیب بتانے میں بخیل نہ ہونا تب ہی ممکن ہو سکتا ہے اگر باری تعالیٰ نے کمال فراوانی کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علوم و اَخبارِ غیب پر مطلع فرمایا ہو، اگر سرے سے علمِ غیب عطا ہی نہ کیا گیا ہو تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غیب بتانا کیسا اور پھر اس پر بخیل نہ ہونے کا کیا مطلب؟ سو معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطلع علی الغیب ہونے کی قطعاً نفی نہیں بلکہ نفع و نقصان پر خود قادر و مالک اور بالذات عالم الغیب ہونے کی نفی ہے کیونکہ یہ شان صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔
189. اور وہی (اللہ) ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا فرمایا اور اسی میں سے اس کا جوڑ بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے، پھر جب مرد نے اس (عورت) کو ڈھانپ لیا تو وہ خفیف بوجھ کے ساتھ حاملہ ہوگئی، پھر وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی رہی، پھر جب وہ گراں بار ہوئی تو دونوں نے اپنے رب اللہ سے دعا کی کہ اگر تو ہمیں اچھا تندرست بچہ عطا فرما دے تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہوں گے
190. پھر جب اس نے انہیں تندرست بچہ عطا فرما دیا تو دونوں اس (بچے) میں جو انہیں عطا فرمایا تھا اس کے لئے شریک ٹھہرانے لگے تو اللہ ان کے شریک بنانے سے بلند و برتر ہے
191. کیا وہ ایسوں کو شریک بناتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے اور وہ (خود) پیدا کئے گئے ہیں
192. اور نہ وہ ان (مشرکوں) کی مدد کرنے پر قدرت رکھتے ہیں اور نہ اپنے آپ ہی کی مدد کرسکتے ہی
193. اور اگر تم ان کو (راہِ) ہدایت کی طرف بلاؤ تو تمہاری پیروی نہ کریں گے۔ تمہارے حق میں برابر ہے خواہ تم انہیں (حق و ہدایت کی طرف) بلاؤ یا تم خاموش رہو
194. بیشک جن (بتوں) کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو وہ بھی تمہاری ہی طرح (اللہ کے) مملوک ہیں، پھر جب تم انہیں پکارو تو انہیں چاہئے کہ تمہیں جواب دیں اگر تم (انہیں معبود بنانے میں) سچے ہو
195. کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چل سکیں، یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑ سکیں، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھ سکیں یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سن سکیں؟ آپ فرما دیں: (اے کافرو!) تم اپنے (باطل) شریکوں کو (میری ہلاکت کے لئے) بلا لو پھر مجھ پر (اپنا) داؤ چلاؤ اور مجھے کوئی مہلت نہ دو
196. بیشک میرا مددگار اللہ ہے جس نے کتاب نازل فرمائی ہے اور وہی صلحاء کی بھی نصرت و ولایت فرماتا ہے
197. اور جن (بتوں) کو تم اس کے سوا پوجتے ہو وہ تمہاری مدد کرنے پر کوئی قدرت نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنے آپ کی مدد کرسکتے ہی
198. اور اگر تم انہیں ہدایت کی طرف بلاؤ تو وہ سن (بھی) نہیں سکیں گے، اور آپ ان (بتوں) کو دیکھتے ہیں (وہ اس طرح تراشے گئے ہیں) کہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ (کچھ) نہیں دیکھتے
199. (اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں
200. اور (اے انسان!) اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ (ان امور کے خلاف) تجھے ابھارے تو اللہ سے پناہ طلب کیا کر، بیشک وہ سننے والا جاننے والا ہے
201. بیشک جن لوگوں نے پرہیزگاری اختیار کی ہے، جب انہیں شیطان کی طرف سے کوئی خیال بھی چھو لیتا ہے (تو وہ اللہ کے امر و نہی اور شیطان کے دجل و عداوت کو) یاد کرنے لگتے ہیں سو اسی وقت ان کی (بصیرت کی) آنکھیں کھل جاتی ہیں
202. اور (جو) ان شیطانوں کے بھائی (ہیں) وہ انہیں (اپنی وسوسہ اندازی کے ذریعہ) گمراہی میں ہی کھینچے رکھتے ہیں پھر اس (فتنہ پروری اور ہلاکت انگیزی) میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے
203. اور جب آپ ان کے پاس کوئی نشانی نہیں لاتے (تو) وہ کہتے ہیں کہ آپ اسے اپنی طرف سے وضع کر کے کیوں نہیں لائے؟ فرما دیں: میں تو محض اس (حکم) کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی جانب سے میری طرف وحی کیا جاتا ہے یہ (قرآن) تمہارے رب کی طرف سے دلائل قطعیہ (کا مجموعہ) ہے اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں
204. اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
205. اور اپنے رب کا اپنے دل میں ذکر کیا کرو عاجزی و زاری اور خوف و خستگی سے اور میانہ آواز سے پکار کر بھی، صبح و شام (یادِ حق جاری رکھو) اور غافلوں میں سے نہ ہوجاؤ
206. بیشک جو (ملائکہ مقربین) تمہارے رب کے حضور میں ہیں وہ (کبھی بھی) اس کی عبادت سے سرکشی نہیں کرتے اور (ہمہ وقت) اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز رہتے ہیں
KURAN uygulamasını telefonunuza siz de yükleyin: